Blog
انانیت کیسے ختم کی جائے ؟؟

عام طور پر دیکھا جائے تو” انا” جسے انگریزی میں ایگو کہتے ہیں ہر انسان کے لئے نقصان دہ ہے ۔ایگو والے سے بہت سے لوگ دور ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی ایگو والا بہت لوگوں سے دور رہتا ہے ،انانیت انسان کو زندگی کے بھیانک موڑ پر لا کر کھڑا کر تی ہے ۔مجھے یاد یہ کہ جب ایک مرتبہ میں تربیتی سیشن لے رہا تھا تو ہمارے ایک استاد ہمیں کامیاب لوگوں کی زندگی کے بارے بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’بیٹا ! کامیابی کے لئے flexible لچکدار ہونا ضروری ہے ،ہمیشہ وہی بندہ ترقی کرتا ہے جو اپنے آپ کو موقع اور حالات کے ساتھ تبدیل کرتا ہے ‘‘ اس وقت مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا کہ کوئی انسان کیسے تبدیل ہوسکتا ہے لیکن آج لوگوں کو بدلتا دیکھ کر میں خود حیران ہوجاتا ہوں۔میرا مشاہدہ ہے کہ انا پرستی زیادہ تر ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو خود کو بدلنا پسند نہیں کرتے ،اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کو اپنی ذاتی زندگی میں ،اپنے گھریلو معاملات میں اور یہاں تک کہ اپنے معاشی اور معاشرتی معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑھتا ہے ۔
تکبر اور انانیت والے کو اللہ رب ذوالجلال پسند نہیں فرماتا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ۔ ترجمہ: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)۔
امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : تکبر کی تین قسمیں ہیں: (1)وہ تکبر جو اللہ پاک کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللہ پاک کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔(2)وہ تکبر جو اللہ پاک کے رسول کے مقابلے میں ہو ،جس طرح کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے ،ہماری ہدایت کے لئے اللہ پاک نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔(3)وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے ،حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، 2 / (707)
یادرہے کہ تکبر کرنے سے انسان کافر تو نہیں ہوتا مگر گناہوں کا بہت بڑا بوجھ اپنے سر پر اٹھا لیتا ہے ۔اور جب تک توبہ نہیں کرے گا اس وقت تک وہ اس گناہ سے خلاصی نہیں پاسکتا ہے۔
ایگو (انا) پیدا ہونے کی کثیر وجوہات میں سے ایک وجہ زیادہ تعریف کا ہونا بھی ہے ،اگر کسی شخص کی بار بار تعریف کی جائے یا اس کی کامیابیوں کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے، تو وہ اپنی اہمیت کے متعلق غیر حقیقی خیالات پیدا کر لیتا ہے، جو ایگو کا باعث بنتے ہیں ۔یہ معاملہ اکثر ان لوگوں میں ہوتا ہے جو زیادہ مشھور و معروف ہوتے ہیں ،شہرت کی وجہ سے کسی بھی تنقید کے نتیجے میں ایگو کا اظہار ہوتا ہے۔اسی طرح بسا اوقات والدین کی تربیت کا انداز ایسا عامرانہ ہوتا ہے کہ وہ بچے شخصیت میں ایگو پیدا کردیتا ہے یعنی وہ والدین جو بچوں پر ضرورت سے زیادہ سختی کرتے ہیں تو اصولا بچہ اپنے والدین سے ہی سیکھتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے ۔اگر والد ین میں ایگو ہوتی ہے تو بہت ممکن ہوتا ہے کہ بچہ بھی اسی طریقے پر چلتے ہوئے انانیت پسند ہوجاتا ہے یا اس کے برعکس اگر بچپن میں والدین اپنے بچے کو حد سے زیادہ ترجیح دیں اور اس کی ہر بات کو صحیح مانیں، تو بچے میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ درست ہے، جواس کے اندر ایگو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
غلط صحبت بھی انانیت کی ایک بڑی وجہ ہے کہ جب ہم ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں جن کے افعال و اقوال میں غرور تکبر ظاہر ہوتا ہے تو ستر فیصد چانسز بڑھ جاتے ہیں کہ ہم بھی ان کا اثر قبول کرلیں گے اور غرور وتکبر کا اظہار کرنے لگیں ۔جیسے اگر کوئی شریف النفس نوجوان اوباش اور بدتمیز لڑکوں میں بیٹھنے لگتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں بے باکی اور بد تمیزی کا عنصر نظر آجاتا ہے
یوں دیکھا جائے تو بہت سے اسباب ہیں اس مرض تکبر و انانیت کے جن کی فہرست بنائی جائے تو تحریر طویل ہوجائے گی مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم یا ہمارے ارد گرد کوئی فرد ایگو کی اس سنگین بیماری میں مبتلاء ہے تو اسے کس طرح دور کیا جائے ؟ اور کیسے اس کی شخصیت کو تبدیلی پر امادہ کیا جائے؟؟
مشائخ کرام اور ماہرین تربیت کہتے ہیں کہ چند کام ایسے ہیں کہ جن کے کرنے سے انسان اس بیماری سے بچ سکتا ہے اور وہ مندرجہ ذیل ہیں
1مثبت اندازِ گفتگو کے ذریعے اسے یہ باور کرایا جائے کہ تم بہت بہادر اور عاجزی کرنے والے شخص ہو۔
2 ۔ روزانہ خود احتسابی کرنا اور اپنے قول و فعل پر غور کرنا کہ میں نے آج کیا کیا کام کئے ہیں۔
3۔ سیرت مطہرہ کے وہ واقعات جو عاجزی و انکساری کا درس دیتے ہیں وہ اسے بتائے جائیں۔
4۔ایسے لوگوں کی صحبت کا مشورہ دیا جائے جو عاجزی و انکساری کرتے ہوں ۔
5۔ خود پسندی کے نقصانات بتائے جائیں اور اس کی مذمت بیان کی جائے مگر اندازِ بیاں بہت شائستہ ہو۔
یہ وہ کام ہیں جو انسان کو عاجزی اور انکساری کی طرف لے جاتے ہیں ۔کسی دانشور نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’ جو شخص تکبر کرتا ہے وہ بے وقوف ہے کیونکہ تکبر کرنا تو اللہ رب ذوالجلال کی صفت ہےوہی متکبر بھی ہے ،جبار بھی ہے اور رحمن بھی‘‘۔
حضرت قطب ربانی ابو مخدوم شاہ سید محمد طاہر اشرف جیلانی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ مریدین کی تربیت کرتے ہوئے فرمایا : ’’اپنے آپ کو کمتر سمجھو اور اپنی عبادت پر ناز مت کرو بلکہ دوسروں کے مقابلے میں حقیر سمجھو کیونکہ بزرگانِ دین کا یہی معمول ہے‘‘۔یعنی دنیاوی معاملات تو دنیاوی ہیں دینی معاملات میں بھی اپنے آپ کو کسی سے بڑا نہ سمجھو اسی میں خیر ہے اسی میں بھلائی ہے۔
یہاں ایک بات خاص طور سے ذکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ انا پرستی (ایگو) کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں صحیح کرنے لے لئے ہم بھی ایگو کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ اس شخص کی سختی اور غرور ختم ہوجائے مگر اکثر طور پر ہمیں ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑھتا ہے کیونکہ یہ عمل غیر ممکن ہے لھذا کسی شخص کی ایگو کا خاتمہ اگر ممکن ہے تو محبت اور پیار کے ذریعے ہی ہو سکتاہے کیونکہ محبت وہ ہتھیار ہے جو بڑے سے بڑے سنگ دل کو بھی موم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عجزو انکساری عطا فرمائے اور ظاہری و باطنی بیماریوں سے بچائے ۔آمین